تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا[49] انْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَكَفَى بِهِ إِثْمًا مُبِينًا[50] أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا[51] أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا[52]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاک کہتے ہیں، بلکہ اللہ پاک کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ان پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ [49] دیکھ وہ اللہ پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں اور صریح گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے۔ [50] کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ بتوں اور باطل معبود پر ایمان لاتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں جو ایمان لائے ہیں۔ [51] یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کرے پھر تو کوئی اس کی مدد کرنے والا ہرگز نہ پائے گا۔ [52]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزه کرتا ہے، کسی پر ایک دھاگے کے برابر ﻇلم نہ کیا جائے گا [49] دیکھو یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں اور یہ (حرکت) صریح گناه ہونے کے لئے کافی ہے [50] کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا؟ جو بت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیاده راه راست پر ہیں [51] یہی وه لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ لعنت کر دے، تو اس کا کوئی مددگار نہ پائے گا [52]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں پاکیزہ کہتے ہیں (نہیں) بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا [49] دیکھو یہ خدا پر کیسا جھوٹ (طوفان) باندھتے ہیں اور یہی گناہ صریح کافی ہے [50] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں [51] یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے تو تم اس کا کسی کو مددگار نہ پاؤ گے [52]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 49، 50، 51، 52،

منہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت ٭٭

یہودونصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کہ چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی ان کے اس قول کی تردید میں یہ آیت «أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:49] ‏‏‏‏ نازل ہوئی اور یہ قول مجاہد رحمہ اللہ کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہیں، یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہو گئے ہیں وہ ہمارے لیے قربت الٰہی کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بے خطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں۔ [صحیح مسلم:3002] ‏‏‏‏
1755

بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اس اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی “ پھر فرمایا ” اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے ۔ [صحیح بخاری:2662] ‏‏‏‏
1756

مسند احمد میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو کہے میں مومن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے، [مسند الفاروق:574/2:ضعیف و منقطع] ‏‏‏‏ ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے، [ضعیف:اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ربذی راوی ضعیف ہے] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعے ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطافرماتا ہے اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی، تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لیے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے [مسند احمد:93/4،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے [سنن ابن ماجہ:3743،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان صبح کو دین لےکر نکلتا ہے پھر جب کہ وہ لوٹتا ہے تو اس کے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا (‏‏‏‏اس کی وجہ یہ ہوتی ہے) کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لیے ملا، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حلانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع اور بسا اوقات ممکن ہے ان کی تعریفی کلمات کے بعد بھی اس سے اس کا کام نہ نکلے لیکن اس نے تو اللہ کو ناخوش کردیا۔ پھر آپ نے آیت تزکیہ کی تلاوت فرمائی(‏‏‏‏ابن جریر)

اور اس کا تفصیلی بیان «فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ» [53-النجم:32] ‏‏‏‏‏‏‏‏ کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا، فتیل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے۔
1757

پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں؟ اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہو گا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے «تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [2-البقرة:134] ‏‏‏‏ ” ‏‏‏‏یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ “

پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لیے کافی ہے «جِبْتِ» کے معنی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وغیرہ سے جادو اور طاغوت کے معنی شیطان کے مروی ہیں، [تفسیر ابن جریر الطبری:462/8] ‏‏‏‏ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ «جبت» حبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے، ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں سے یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا یہ جبت ہے، [سنن ابوداود:3907،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

حسن کہتے ہیں «جبت» شیطان کی گنگناہٹ ہے، طاغوت کی نسبت پہلے سورہ بقرہ میں تفصیلی ذکر گزر چکا ہے اس لئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں، جابر رحمہ اللہ سے جب طاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جن کے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں۔
1758

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی عبادت اللہ سوا کی جائے۔ پھر فرمایا کہ انکی جہالت بے دینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت ہیاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتا ؤ تو ہم بہتر ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں؟

تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کرکے دوسروں کو کھلاتے ہیں، لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صنبور ہیں ہمارے رشتہ ناتے تڑوادیے۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا ہے جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتا ؤ ہم اچھے یا وہ؟ تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پرہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے انہی کے بارے میں «‏‏‏‏إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الأَبتَرُ» ‏‏‏‏ [108-الکوثر:3] ‏‏‏‏ اتری ہے۔

بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لیے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے

چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے، نامراد و ناکام پلٹے، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا۔ «وَرَدَّ اللَّـهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا ۚ وَكَفَى اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» ‏‏‏‏ [ 33-الأحزاب: 25 ] ‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے (‏‏‏‏کافروں کو) اوندھے منہ گرا دیا، «فالحمداللہ الکبیر المتعال» ۔
1759

1760



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.